پہلے کے بزرگ بتاتے تھے کہ دیکھو شیطان کو رمضان میں ایک ماہ کے لیے بند کر دیا جاتا ہے تاکہ تم عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا جتنا ثواب سمیٹ سکتے ہو بلا کسی ابلیسی مداخلت کے سمیٹ لو۔ مگر اب لگتا ہے کہ شیطان قید تو ہے پر ٹی وی کے کھانچے کی جیل میں۔ ایسے ایسے عالمانہ سوانگ بھرتا ہے، نفس کے غلاموں کو ایسی ایسی ٹوپیاں پہناتا ہے کہ یہی ناپتے رہ جاؤ کہ غلط کیا ہے اور صحیع کیا ہے۔ تزکیہِ نفس کیا ہے اور نفسا نفسی کیا ہے۔
پہلے متوسط گھرانوں میں اتنی افطار تیار ہوتی تھی کہ آدھی خاموشی کے ساتھ نادار ہمسائیوں کے ہاں پہنچ جائے یا در کھٹکٹانے والے ضرورت مندوں میں بانٹ دی جائے۔ بچوں کو گھر کے بڑے تاکید کرتے تھے کہ شرفا گھر پر روزہ کھولتے ہیں یا پھر محلے کی مسجد میں۔
مگر اب پتہ چلا کہ روزہ تو دراصل رکھا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ریسٹورنٹ یا افطار پارٹی میں کھولا جائے۔ جس کی افطار پارٹی میں جتنے متمول دمکتے چہرے اتنی ہی واہ واہ۔ اور پھر نادار ضرورت مند چہرے دیکھ کر موڈ بھی خراب نہیں ہوتا۔
پہلے ہم بچوں کو یہ سمجھایا جاتا تھا کہ تراویح کا مقصد یہ ہے کہ سال بھر زندگی کے جھمیلوں میں اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ قرآن کو سمجھ کر سنا جائے۔ چنانچہ رمضان کی ہر شب جب امام صاحب ٹھہر ٹھہر کے قرات فرمائیں گے تو مقتدی کو لفظ کی درست ادائی سمجھا پائیں گے۔ جس تناسب سے مساجد میں اضافہ ہوا ہے اس سے کئی گنا عبادت گزاروں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
اگر کوئی شے زمانے کے ساتھ ساتھ گھٹی ہے تو وہ وقت ہے۔ وقت پہلے کمیاب ہوا اب نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب اس مسجد میں زیادہ رش ہوتا ہے جہاں قاری صاحب بلٹ ٹرین کی رفتار سے تروایح پڑھائیں۔ بھلے سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن تراویح تو ہو گئی نا۔
یوں 30 روزہ تروایح پہلے 20 روزہ ہوئی، پھر دس روزہ، اب کچھ مساجد میں تین روزہ ایکسپریس تراویح کا بھی اہتمام ہے۔اس اعتبار سے اگلا مرحلہ ون ڈے تراویح کا آنے والا ہے۔گویا قرات پر کرکٹ کے قوانین لاگو کئے جا رہے ہیں۔جب آپ ایک مقدس شے کو کھیل بنائیں گے تو قوانین بھی تو وہی لاگو ہوں گے۔
اگر زور ہے تو اس پر ہے کہ کوئی دن میں کھاتا پیتا نظر نہ آئے ورنہ کڑی سزا ملے گی۔ ضعیف، بچہ، بیمار، حاملہ عورت، مسافر، غیر مسلم اپنی سلامتی کے خود زمہ دار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی جوشیلے کو اپنی جانب لپکتے دیکھیں اور جب تک آپ اسے سلوکِ نبوت اور بعض حالتوں میں روزے کی چھوٹ کا حوالہ دینا شروع کریں تب تک آپ کو دو چار ہاتھ پڑ چکے ہوں۔
احترامِ رمضان کے بارے میں شریعت بھلے کچھ بھی کہے مگر ملکی قانون بلا امتیاز سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتا ہے اور قانون تو بہرحال اندھا ہوتا ہے اور اندھے کی لاٹھی کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے۔
پہلے جس عبادت گزار کو جس مسجد میں جہاں جگہ ملتی رمضان کے آخری دس روز وہیں اعتکاف میں بیٹھ جاتا۔ مگر اب ایگزیکٹو اور وی وی آئی پی اعتکاف کا دور ہے۔ اب رمضان میں ٹریول ایجنٹس کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی کیونکہ اشرافیہ اور متمولین آخری عشرہ مسجدِ نبوی میں گذارنا چاہتے ہیں۔ وہاں بھی خدا کو پورا وقت دینے کے بجائے اعتکافی سیلفیاں پوسٹ کرتے ہیں اور ٹائم لائن بھی اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔
پہلے اعتکاف یکسو حاضری ہوا کرتا تھا اب سٹیٹس سمبل ہے۔ پہلے زمانے میں ان حرکتوں کو ریاکاری کہا جاتا تھا اب کچھ نہیں کہا جاتا۔
مگر بے شمار مسلمان اب بھی خاموشی سے خیرات و اعتکاف و تیس روزہ تراویح پر یقین رکھتے ہیں۔ عباداتی اشتہار بازی سے کوسوں دور یہی تو لوگ ہیں جو رمضان کی آبرو ہیں۔