بیس مجرم


بغداد کی جیل سے بِیس مجرموں کونکال کر پھانسی گھاٹ لے جایا گیا ، تو اُن میں سے ایک بھاگ نکلا ۔

پولیس نے تعاقب کیا لیکن اسے پکڑنے میں ناکام رہی ۔

ڈیوٹی پر مامور پولیس افسر بہت پریشان ہوا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا:

بڑا افسر کوئی عذر قبول نہیں کرے گا ، وہ یہی کہے گا کہ میں  نے کچھ رشوت لے کر اسے بھگا دیا ہے اور مجھے دھرلے گا ۔

ایک سپاہی نے کہا: صاحب! ہمیں بھاگ جانا چاہیے ۔

کہنے لگا:رات کے اس پہر بھاگ کرکہاں جائیں  گے!!

پھر کچھ سوچ بچار کے بعد کہنے لگا:

یہ آدھی رات کا وقت ہے کسی کو کیا معلوم ، کیا پیش آیا ۔

تم میرے ساتھ آؤ ، کوئی نہ کوئی بدبخت مل جائے گاجسے پکڑ کر سولی پر لٹکا دیں گے ، اور 20 کی تعداد پوری ہوجائے گی ۔

چناں چہ وہ سپاہیوں کو ساتھ لے کر پُل کے مغربی کنارے کی طرف چل دیا ۔

انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی پل کے قریب رفع حاجت کے لیے بیٹھاہوا ہے ۔

وہ اس کی طرف لپکے اور اسے جا دبوچا ۔

اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ تمھیں کیا ہوگیا ، میں تو ملاح ہوں ابھی کشتی سے پیشاب کرنے اترا ہوں ، میری تمھاری کوئی دشمنی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن پولیس والے اسے مارتے جاتے اور کہتے تو وہی ہےجو سولی سے بھاگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسے لاکر سولی پر کھڑا کر دیا ۔

وہ ساری رات چیختاچلاتا رہا ۔

اس کی آہ و بکا سے بعض پولیس والوں کے دلوں میں رحم پیدا ہوا لیکن ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔

جب صبح پھانسی کا وقت ہوا تو بڑا افسر آگیا ، لوگ بھی جمع ہوگئے ۔

افسر سزا کاحکم جاری کرنے لگا تو مَلَّاح پھر چِلّا کر کہنے لگا:

اے افسر ، اللہ کے حضور پیش ہونے سے ڈر اور میری بات سن!

میں اُن مجرموں میں سے نہیں ہوں ، جنھیں تو نے پھانسی کے لیے جیل سے نکالا تھا ، ” انا مظلوم وقد وقعت بی حیلة “ میں ایک مظلوم ہوں ، میرے ساتھ چال چلی گئی ہے ۔

افسر نے اسے سولی سے اتارا اور پوچھا:

 تیرا کیا معاملہ ہے؟

اس نے ساری بات سچ سچ بتادی ۔

افسر نے پولیس والوں کو بلا کر پوچھا تو انھوں نے صاف انکار کردیا اور کہا: آپ نے جو بیس آدمی ہمارے سپرد کیے تھے یہ انھی میں سےایک ہے ۔

افسر نے کہا: تم لوگوں نے پیسے لے کر اصل مجرم چھوڑ دیا اور اس کی جگہ اس غریب کو لا کھڑا کیا!

پھر اس نے ملاح کے علاوہ سب کی گردنیں اڑا  کر حکم دیا:جیلروں اور پہرے داروں کو پیش کرو!

وہ جب حاضر ہوئے تو اس نے پوچھا:

کیا یہ شخص اُنھی بِیس مجرموں میں سے ہے جنھیں پھانسی کے لیے ہم نے جیل سے نکالا تھا ؟

انھوں نے بہ غور دیکھنے کے بعد کہا: نہیں!

افسر نے کچھ سوچ کر ملاح کو آزاد کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر کہنے لگا: اسے میرے سامنے لاؤ! 

پولیس نے جب اسے دوبارہ پیش کیا تو افسر نے پوچھا:

تم آدھی رات کو وہاں کیا کررہے تھے؟

کہنے لگا: میں اپنی کشتی میں سویا تھا ، پیشاب نے زور کیا تو وہاں اترا ۔

پولیس افسر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا:

مجھے سچ سچ بتاؤ تم وہاں کیا کررہے تھے تاکہ تمھیں چھوڑ دوں ۔

ملاح نے جب کوئی نئی بات نہ بتائی توافسر نے اپنےمخصوص طریقے سے اسے سب کچھ اگلنے پرمجبور کر دیا۔

ملاح نے کہا: اللہ تم پرگواہ ہے ، اگر میری جان اور اعضا سلامت رہیں تو سچ بتاؤں ؟ اس نے کہا: بولو!


کہنے لگا: میں ملاح ہوں فلاں پَتَّن پرکام کرتاہوں ۔

کل رات ایک خادم میرے پاس آیا ، اُس نے مجھے کرایہ دیا اور ایک خوب صورت عورت کو دوبچیوں سمیت میرے حوالے کرتے ہوئے کہا: 

انھیں بابِ شَمَّاسِیَہ تک چھوڑآؤ ۔

میں انھیں کشتی میں بٹھا کر چل پڑا ۔

کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد خاتون نے چہرے سے نقاب  ہٹایا تومجھے ایسے لگا کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ حسین ہے اور اس کا چہرہ چاند جیسا ہے ۔

مجھ پر  شہوت نے غلبہ کیا  تو میں نے چپو رکھ دیا اور کشتی کو دریاے دجلہ کے درمیان لے گیا ۔

پھر عورت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ چیخنے لگی ۔

میں نے قسم کھاکرکہا:

اگر تو چیخے چِلَّائے  گی تو میں تجھے ابھی دریا بُرد کردوں گا ۔

وہ خاموش تو ہوگئی لیکن مجھے خود سے دور کرنے لگی ۔

جب بڑی کوشش کے بعد بھی میں اس پر قابو نہ پاسکا تو میں نے پوچھا: یہ بچیاں کون ہیں ؟

کہنے لگی: میری بیٹیاں ہیں ۔

میں نے کہا: تم خود کو میرے سپرد کرنا پسندکرو گی یاانھیں دریا میں پھینک دوں ؟

اس نے کہا: جو چاہے کرو ، لیکن میں تمھارے قریب نہیں آؤں گی ۔

میں نے اس کی ایک بیٹی کو دریا میں پھینک دیا ۔

اس نے چیختے ہوئے کہا: اللہ کی قسم میں تیری بات نہیں مانوں گی ، چاہے تو مجھے قتل کردے!

میں نے کہا: میری بات مان لو ورنہ دوسری بچی کو بھی پھینک دوں گا ۔

اس نے کہا: اللہ کی قسم میں ایسا نہیں کروں گی!

میں نے اس کی دوسری بیٹی کو بھی پانی میں پھینک دیا ۔

اس نے زور دار چیخ ماری تو میں نے چِلَّا کر کہا: اگر تُو نے میری بات نہ مانی تو تجھے بھی مار دوں گا ۔

پھر میں اسے ہاتھوں سے پکڑ کر دریا میں پھینکنے لگا تو اس نے ( ڈر کے مارے )  ہاں کردی ۔

جب میں اس کے ساتھ بدکاری کرچکا ، تو خیال آیا اگر اسے زندہ چھوڑ دیا تو یہ اپنے گھر والوں سے مجھے قتل کروادے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تو اسے بھی ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں پھینک دیا ۔


یہ سب کچھ کرنے کے بعد میں بہت شرمندہ ہوا اور میری حالت اس شخص جیسی ہوگئی جو نشے سے ہوش میں آ گیا ہو ۔

میں نے اپنی کشتی بصرے کی طرف چھوڑ دی تاکہ مجھے کوئی بھی پہچان نہ سکے ۔

جب میں پُل کے پاس پہنچا تو پیشاب آگیا اور میں کشتی روک کر پیشاب کرنے بیٹھا ہی تھا  کہ اِنھوں نے مجھے گرفتار کرلیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پولیس افسر نے ملاح کی بات سن کرحکم دیا:

اس کے ہاتھ کاٹ دو!

ملاح نے کہا: آپ نے مجھے امان نہیں دی تھی؟

 کہنے لگا: اے کتے تیرے جیسے کو امان دی جاتی ہے!!

تُو نے تین قتل کیے ، زنا کیا اور اپنی خباثت کو چھپایا ۔

پھر اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اس کی گردن بھی کاٹ دی اور جسم کوآگ لگادی ۔


(حوالہ" ملخصاً: ذم الھوی ، الباب الرابع والاربعون ، فی ذکرمن حملہ العشق علی قتل الناس ، ص 318تا320 ، رقم 1030، دارالکتاب العربی بیروت 1424ھ)

*اے پیارو! یاد رکھو*

ظالم کسی نہ کسی دن ، کسی نہ کسی طرح گرفت میں آہی جاتے ہیں۔ لوگوں پر بے جاہ ظلم کرنے والے، دوسروں کا حق کھانے والے، اپنے کمزور  پر ظلم کرنے والے، کسی کی عزت سے کھیلنے والے، علماء کوناحق جیلوں میں بند کرنے والے ، نہتے شہریوں کو دن دیہاڑے بھون دینے والے، لوگوں کی املاک تباہ کرنے والے ظالم بھی کب تک امن میں رہیں گے۔۔آخر اک دن انجام کو پہنچ کر رہیں گے ، انشاءاللہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم