‏گول گپے والا بھیا

 میری بہن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اپنا فیورٹ شو دیکھ رہی تھی مجھ کو آج ٹیوشن کے پیسے ملے تھے سو میں اس کی پسند کے گول گپے لے آیا تھا ۔میں اس کی زیادہ خواہشیں تو پوری کر نہیں پاتا تھا مگر میری کو شش ہوتی تھی میں اسکی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ضرور مہیا کر دیتا تھا وہ بھی بہت سمجھ دار تھی جانتی تھی کہ بھائی کی جیب کتنی چھوٹی ہے سو وہ ایک انڈے والے برگر یا گول گپوں کی پلیٹ پر ہی راضی ہوجاتی تھی ۔

چھوٹی دیکھ میں تیرے لیے کیا لایا ہوں "

میں نے شاپر اس کے سامنے لہرا کر کہا اور وہ حسب عادت خوشی سے چلاتی ہوئی بولی " میرا پیارا بھیا گول گپے والا بھیا "اور کچن میں بھاگ گئی کیوں کہ وہ ہمیشہ سے ہی مل بانٹ کر کھانے کی عادی تھی میرے لیے اور اماں کے لیے وہ ہر چیز کے تین حصے بناتی اور زبردستی اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ۔

میں اکثر اس کی عادتیں دیکھ کر سوچتا تھا کہ یہ بہنیں چھوٹی ہو کر بھی اتنا بڑا دل کیسے رکھتی ہیں ۔

رات کو جب میں 9 بجے سو کر اٹھا تو گھر سے بریانی کی مہک آرہی تھی میں مسکرایا اماں کو شام پیسے دیے تھے لاکر اور اماں نے آج ہی بریانی بنا لی اماں جانتی تھی کہ مجھ کو اور زویا کو بریانی کتنی پسند ہے ۔

میں جیسے ہی منہ دھو کر آیا اماں میرے پاس جلدی جلدی آئیں اور بولا " حمزہ بیٹا یہ ایک پلیٹ بریانی اپنی حنا خالہ کو دے آ"

حنا خالہ میری اماں کی کزن تھیں شوہر اعلی سرکاری عہدے پر تھے  اور ہمارے گھر سے ذرا دور ایک اچھی سو سائٹی میں رہتی تھیں ۔ میں جانتا تھا خالہ کی طرف اماں کا جھکاؤ کیوں ہے اور مجھ کو اپنی بہن کی آنکھوں میں چمکتے ہوے دیپ بھی نظر آتے تھے مگر میں ڈرتا تھا کہ کہیں امی اور بہن کا یہ خواب ٹوٹ گیا تو جانے وہ سنبھل بھی پائیں گی اس صدمے سے یا نہیں کیوں کہ خالہ کے سرد رویے کو اماں محسوس نہیں کر پاتی تھیں وہ اپنے سادہ دل سے خالہ کی باتوں کو مذاق میں ٹال جاتی تھیں یا شاید سمجھ کر بھی نا سمجھ تھیں کیوں کہ ماں باپ اولاد کی خوشی کے لیے وہاں بھی ہاتھ پھیلا دیتے ہیں جہاں وہ پاؤں رکھنا بھی نہیں چاھتے میرے ماتھے پر پڑی ہوئی لكیر دیکھ کر اماں کہنے لگی کہ " بیٹا چلے جاؤ نہ زویا نے سٹیٹس لگایا تھا بریانی کا تو فرح نے میسیج کردیا کہ مجھ کو بھی کھانی ہے بریانی  اور ان کے برتن بھی آے ہوے کافی دن سے آج کچھ اچھا بنا ہے تو عزت رہ جاۓ گی برتن بھی چلے جائیں گے واپس '" آخری بات پر اماں کا لہجہ دھیما ہوگیا ۔

اماں کی یاسیت دیکھ کر میرا غصہ فورا رفو ہوگیا میں نے نرمی سے ماں کا ہاتھ تھام کر کہا ۔

اماں آپ ڈال دیں برتن میں میں دے آتا ہوں ۔"

میرا ارادہ باہر سے لوٹ آنے کا تھا ۔اتنے میں فون کی بیل ہوئی اور میں نے فون اٹھایا تو آگے سے فرح تھی ۔سلام کا جواب دے کر میں نے زویا کو آواز دے کر فون اس کو پکڑایا اور خود بال ٹھیک کر کے کچن میں آگیا ۔

اماں بریانی برتن میں ڈال چکی تھیں ابھی میں جانے کے لیے پلٹ رہا تھا کہ زویا جلدی سے دوڑی چلی آئی اور بولا کہ " بھائی پلیز مجھ کوبھی لے چلیے نا فرح کو مہندی لگانی ہے صبح اس نے میلاد پر جانا ہے "

میں اماں کو پھر سے تیز نظر سے دیکھ کر باہر چل پڑا زویا پانچ منٹ میں بریانی اور دوسرا سامان اٹھا کر چلی آئی ۔میں بائک سٹارٹ کر کے خالہ کے گھر کی طرف چل دیا سامنے ہی انکل اپنی نئی گاڑی سے اتر رہے تھے اور ڈھیر شاپرز لیے ہوے اندر جا رہے تھے میں نے اور زویا نے سلام کیا تو سارے شاپر مجھ کو پکڑا دیے اور کہا " حمزہ یار پکڑو یہ سب اور اندر لے آو "

میں ان کے پیچھے پیچھے اندر چلا آیا ۔زویا فرح کے کمرے میں جا گھسی تھی اور میں ڈرائینگ روم میں آ بیٹھا آنٹی سے سلام لیا اور انتظار کرنے لگا ۔

ٹی وی پر خبریں دیکھ رہا تھا کہ سرکاری نوکریوں کے کوٹہ کی خبر چل پڑی میں توجہ سے دیکھنے لگا کیوں کہ میرے پاس بی ایڈ بھی تھا اور ساتھ میں ایم فل انگلش بھی ۔اتنے میں انکل اندر سے فریش ہو کر آبیٹھے میرے سامنے خیر خیریت پوچھنے لگے میں جواب دیتا رہا اور ساتھ گھڑی پر نظر تھی ابا اپنی شاپ سے لوٹنے والے تھے اور میں کھانا ہمیشہ ساتھ کھاتا تھا ۔بیس منٹ بعد میں نے آنٹی کو آواز دی جو کچن میں مصروف تھیں ۔آنٹی ذرا زویا سے پوچھیں کتنا ٹائم لگے گا ابا گھر آگئے ہونگے "

آنٹی نے وہیں سے فرح کو آواز لگائی اور زویا نے آواز دی بس پانچ منٹ رکیں کام ہوگیا ۔

آنٹی بھی ڈرائنگ روم میں آبیٹھیں اور پوچھنے لگیں " بیٹا اور کیا کر رہے آج کل "

میں " آنٹی وہیں کوچنگ کی کلاسز لیتا ہوں چھوٹے بڑے بچوں کی ایک دو ہوم ٹیوشنز ہیں "


انکل نے زور سے ہنکارا بھرا " هممم ! بیٹا کب تک کرو گے کچھ سیرئیس سوچو کوئی کام کاج ڈھونڈو اس سے گھر نہیں چلتا بہن کی بھی زمے داری ہے کل کو باپ بھی تمہارا بوڑھا ہو گیا وہی چھوٹی سی پر چون کی دکان پر کیسے گھر چل رہا ہے میں تو اکثر سوچتا ہوں "

زویا ہاتھ دھو کر ڈرائنگ روم میں آگئی تھی ۔میں " انکل بس کافی جگہ اپلای کر رکھا ہے ابھی گورنمنٹ ٹیچرزکے لیے بھی کروں گا اپلای " آنٹی فورا بولی انکل سے " ارے مجیب صاحب آپ کہیں فون کر کے لگوا دیں نہ حمزہ کو گھر کا بچہ ہے اور ہمیشہ دعائیں دے گا "

انکل " ارے نوکری فون سے نہیں ملتی ہیں میں نے باسط کو 30 لاکھ دے کر لگوایا ہے اور ساتھ میں سفارش بھی تھی بڑ ے صاحب کی کیوں بھائی حمزہ کتنا بجٹ ہے تمہارا "

میں ایک دم گڑبڑاگیا " انکل میرے پاس تو کوئی بجٹ نہیں "

انکل همم بیٹا تو پھر بات یہ ہے کہ نوکری ووکری تو بھول جاؤ ایسا کرو کوئی ٹھیلا لگا لو آلو چاٹ یا گول گپے کا اچھی خاصی انكم ہے ہمارے پرانے پڑوسی تھے نہ قریشی صاحب وہ اور ان کے بیٹے کر رہے ہیں اچھی روزی نکل آتی ہے ساتھ میں گھر کی خواتین بھی شامل رہتی ہیں ایسے چھوٹے موٹے کام کے لیے نہیں رہتی بیٹھی " انہوں نے آخری بات زویا کی طرف دیکھ کر کہا زویا کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھیں ۔تضحیک کے احساس سے میرے کان کی لوئیں سرخ ہورہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ آج میں یہاں کیوں آیا ۔اتنے میں انکل کا بیٹا باسط بھی کام سے لوٹ آیا گرم جوشی سے اس نے ہاتھ ملایا تو مجھ کو بھی مجبورا اٹھ کر اس سے ہاتھ ملانا پڑا اور میں نے اپنے ہونٹوں پر جبری مسکراہٹ سجا لی ۔انکل " آگیا میرا بیٹا پورا ایک لاکھ بیس ہزار تنخواہ لگی ہے اور گاڑی بھی مل گئی ہے " میں نے باسط کی طرف دیکھ کر کہا " یار مبارک ہو بہت بہت "

باسط خوشی سے بولا " ارے یار خیر مبارک " وہ مسکرا کر جس سمت دیکھ رہا تھا میں نے اس کے تعا قب میں دیکھا زویا کی آنکھوں میں آنسو کی جگ ہ اب غصہ تھا اسکی چھوٹی سی ناک سرخ ہوگئی تھی ۔میں نے دل میں کہا پگلی ۔

آنٹی نے اٹھ کر زویا سے کہا زویا چلو بیٹا میرے ساتھ کھانا لگوا دو " زویا نہیں آنٹی کھانا آپ لوگ آرام سے کھا ئیے ابا اماں انتظار کر رہے ہونگے کھانا تیار تھا میں فرح کی وجہ سے آگئی  تھی " انکل چمک کر بولے " ہاں مہندی لگانے میں تو بیٹا ایسا ہوتا ہے جب کوئی بلا لے جانا پڑتا ہے میں نے غصہ سے اپنے دانت بھینچ لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ میں کوئی بد تمیزی کر بیٹھوں ۔انکل مزید بولے اور بیٹا کھا نا نہ سہی میں سموسے رول اور جلیبی لایا ہوں جاو گھر لیتی جانا ۔اور کھانے میں کیا ہوگا وہی دال چاول یا پھر روٹی ارے عمر بیت گئی مگر بھائی صاب اور آپا آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔آنٹی کچن میں عجلت میں گئیں اور بہت سا بیکری کا سامان پلیٹ میں ڈال کر لے آئیں اور جلیبی بھی ساتھ میں کاغذ بھی شیرے کے لیے آنٹی نے زبردستی سامان زویا کو پکڑا دیا اور بولیں بیٹا تمہارے انکل کی عادت ہے مذاق کی تم تو جانتی ہو آپا سے کہنا جلدی چکر لگاؤں گی میں " زویا نے میری طرف دیکھا اور میرا اشارہ دیکھ کر چپ چاپ سامان پکڑ لیا ۔میں انکل اور باسط سے ہاتھ ملا کر تیزی سے باہر نکلا ۔اور دونو بہن بھائی گھر آگئے مجھ کو راستے میں محسوس ہوا کہ میری بہن رو رہی ہے مگر میں چپ رہا ۔میرے ذہن میں آندھی چل رہی تھی میں گھر پہنچ کر ابا کو اپنا اداس پریشان چہرہ نہیں دكهانا چاہتا تھا سو خود کو کمپوز کیا ۔ابا اماں بھوکے بیٹھ کر انتظار کر رہے تھے ابا بہت پیار سے ہم دونو بہن بھائیوں سے بات کرتے رہے زویا نے سامان اماں کو پکڑا دیا اور میں نے دیکھا وہ کافی چپ ہے مگر خود کو نارمل کر کے بیٹھی ہوئی ہے کھانے کے ساتھ اماں نے خالہ کا دیا ہوا سموسے رول اور جلیبی بھی دستر خوان پر لا کر رکھ دی تھی ہم لوگوں نے کھانا کھایا تو جلیبی والی پلیٹ میرے سامنے تھی میں نے چونک کر دیکھا میری سی وی جلیبی کے نیچے دبی تھی میں نے وہ نکال لی اور حیرت سے دیکھنے لگا زویا نے بھی دیکھا ابا نے بھی اور ابا اماں کی طرف گھورنے لگے ۔سموسے رول کے نیچے سے میرے ڈاکیومنٹ کی کاپی نکل آی میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سامان خالہ نے کیوں دیا ہے میں نے نارمل ہو کر جلیبی کھائی کھانا پہلے ہی کھا چکا تھا ۔

کھانے کے بعد میں کمرے میں اٹھ آیا زویا میرے پیچھے تھی ۔

بھائی ہم گول گپے کا ٹھیلا لگا لیں زویا نے مضبوط لہجے میں کہا ۔میں مسکرا اٹھا اور بولا ہاں بہنا تمہاری دعا پوری کرنے کا ٹائم آگیا ہے ۔" میں ہنس پڑا گول گپے والا بھائی ۔

یہ ایک مشکل وقت تھا میں نے اور زویا نے اماں کو کیسے راضی کیا ۔اماں بہت غصہ ہوئیں بہت دھمکی  دیں مگر ابا خاموش رہے وہ خود بھی صدمے میں تھے ۔اور شا ید وہ کہیں سوچ رہے تھے کہ اس سب کے ذمہ دار وہ ہیں مگر میں جانتا تھا ابا کے پرانے جوتے ٹوٹے ہوتے تھے اور میرے اور زویا کے سکول کے شوز آجاتے تھے ۔ابا نے اماں سے کہا کہ جو میرے بچے چاھتے ہیں انکو کرنے دو ۔اماں چپ ہو گئیں ۔زویا نے اپنے جہیز کے لیے ہوے ڈنر سیٹ کو نکالا اپنے ککر اور کٹلری کو نکالا اور یوں ہم دونوں بہن بھائیو نے 3/دن کے اندر گول گپے کا سیٹ اپ بنا لیا ۔کہتے ہیں دوست بھائی سے زیادہ وفا دار ہوتا ہے دوست نے کرسی اور ٹیبل لے دی ایک دوست کے ابو نے نیا ٹھیلا اور چوتھے دن ہم ایک اچھی جگہ پر اپنے سٹال سمیت کھڑے تھے میں نے زویا کو پیار سے سمجھایا تھا کہ کل کو اس کی شادی ہونی ہے وہ گھر بیٹھ کر تیاری کرے میں اکیلا سٹال چلا لوں گا مگر وہ اپنی بات پر ڈٹی رہی کل کی فکر کل کریں گے پہلے آج کو ٹھیک کر لیں ۔پہلے روز ہی دوست اپنی اپنی فیملی کو ساتھ لے کر آگئے میرے کام کی شروعات کروانے دو دوست سڑک پر کھڑے ہو کر فیملیز کو بلاتے رہے کہ آئیں ہمارے ایجوکیٹڈ گول گپے ٹرائی کریں ۔یہ نام زویا نے رکھا تھا کام کا ۔پہلے ایک دو اور پھر تین چار فیملی آتی رہیں میرے دوست اور میری بہن نے میرے لیے جتنی محنت کی رات گئے تک ہم پہلے دن ہی پانچ ہزار کی سیل کر چکے تھے ۔رات کو سارا سیٹ اپ بند کروا کر میرے دوست ہم بہن بھائیو کو گھر تک چھوڑ گئے ۔ہم دونو بہت خوش تھے ۔اگلا دن ایک نئی صبح ایک نئی شروعا ت لیکر آیا اماں زویا اور ابا ہم سب ایک ساتھ تھے وہی انکل آنٹی اور معاشرے کے دوسرے بیمار ذہن ہم کو برا بھلا بھی کہتے رہے ۔گھر کے نمبر پر بار بار ان نون کال آتی رہی میں جانتا تھا زویا باسط کو بلاک کر چکی ہے ۔سو ہر بار اس کو رانگ نمبر کہہ کر کال کٹ کرتے دیکھتا اور مسکرا دیتا میری بہن بہت مضبوط تھی مگر پھر بھی کبھی کبھی ہمت ہار دیتی تو جلدی سونے کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ۔کام اچھا چل پڑا تھا ۔سرکاری ٹیچنگ بھی مل گئی تھی رات کو گول گپے لگاتا دن میں ڈیوٹی کرتا ۔اماں زویا نے کام کے لیے ہلپر رکھ لی تھی میں نے سٹال سے دکان کا سفر طے کر لیا تھا ۔زویا کا رشتہ ایک دوست کے گھر سے ہی آیا جب اس سے پوچھا تو کہنے لگی لڑکے کو بتا دینا میں ایک گول گپے والے کی بہن ہوں بعد میں کوئی مسلہ نہ کریں میں مسکرا دیا ۔

زویا کی شادی ہوگئی ہے ایجوکیٹڈ گول گپے کا نام بڑھتا جا رہا ہے شہر میں مختلف جگہ ہمارے سٹال ہیں اور ہم ان لڑکوں کو آگے بڑھ کر اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں جو پڑھ لکھ کر اپنے خاندان کے لیے ایک اچھی نوکری ڈھونڈنے میں ناکام رهتے ہیں ۔

یہ معاشرے کا ایک اصل چہرہ ہے ۔جب کوئی آپ کو اپنا سمجھ کر آپ سے مدد مانگتا ہے تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ اللّه نے آپ کو اتنی حیثیت دی ہے چوری حرام کا مال رشوت ۔ پڑھے لکھے لوگ اپنی ڈگری ہاتھ میں لے کر گھوم رہے ہیں اور جن کے ہاتھ میں ذرا اختیار ہے وہ فرعون بن کر بیٹھے ہیں ۔

کوئی بھی کام برا نہیں ہوتا ۔ حرام کھانے سے بہتر ہے کہ کوئی بھی چھوٹا موٹا کام کر کے عزت سے اپنے گھر والو کو رزق حلال مہیا کیا جاۓ ۔دوستوں اپنوں کا ساتھ ہو تو قسمت بھی بدل جاتی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم