گھر میں الماعون کی الماری رکھیں


چند روز قبل ایک انکل جی کے گھر جانا ہوا۔ میں ان کے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایک بچہ آیا اس نے بیلچہ مانگا، انکل نے ایک چھوٹا سا الماری نما کمرہ کھولا، جس کے دروازے پر بڑا کرکے ”الماعون“ لکھا ہوا تھا۔


 بیلچہ نکالا اور دے دیا۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سے نوٹ بک نکالی اس میں تاریخ، وقت لکھ کر پھر بچے کا نام اور ولدیت لکھ لی۔ کچھ دیر ہی گزری تھی پھر گھنٹی بجی، ایک محلے دار آئے، انہوں نے پانی والا پائپ مانگا، انکل نے کمرہ کھولا پائپ نکالا، دے دیا اور نوٹ بک پر ان صاحب کا نام لکھ لیا۔


الماعون کی ہے؟

محدثین  اور بہت سے مفسرین نے اس سے گھروں میں برتنے کی وہ چیزیں مراد لی ہیں جو ہر وقت ہر گھر میں نہیں ہوتیں بلکہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مانگ لی جاتی ہیں، مثلاً سوئی، ہانڈی ، کلہاڑی ، پیالہ ، آگ اور پانی وغیرہ اور عام طور پر ’’ماعون‘‘ کا اطلاق انھی چیزوں پر ہوتا ہے۔


 حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں۔۔۔ میں  نے عرض کی:  یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،  کون سی چیز ہے جس کا منع کرنا حلال نہیں؟ ارشاد فرمایا ’’پانی، نمک اور آگ۔ میں  نے عرض کی:  یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، پانی کو تو ہم سمجھ گئے، مگر نمک اور آگ کا یہ حکم کیوں  ہے؟


ارشاد فرمایا: اے حمیراء!  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا، جس نے کسی کو آگ دی، اس نے گویا اس آگ سے پکا ہوا سارا کھانا خیرات کیا اور جس نے کسی کو نمک دیا اس نے گویا سارا وہ کھانا خیرات کیا، جسے اس نمک نے لذیذ بنایا اور جس نے کسی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی وہاں  پلایا جہاں پانی عام ملتا ہو اس نے گویا غلام آزاد کیا اور جس نے مسلمان کو وہاں ایک گھونٹ پانی پلایا جہاں  پانی نہ ملتا ہو اس نے گویا اسے زندگی بخشی۔ (ابن ماجہ، کتاب الرہون، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث، ۳ / ۱۷۷، الحدیث: ۲۴۷۴)


میں یہ سارا منظر دیکھتا رہا۔ پھر ہم ظہر کی نماز پڑھنے چلے گئے۔ جب نماز پڑھ کر واپس آئے تو ایک لڑکا کلہاڑی اور ”ترینگل“ لیے منتظر تھا۔ انکل نے دونوں چیزیں لیں، نوٹ بک نکالی، اس لڑکے کا نام تلاش کرکے ”وصول“ لکھا اور تاریخ ڈال دی۔


اب مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ان سے پوچھا ”آپ یہ چیزیں کرائے پر دیتے ہیں“۔ وہ مسکرائے اور بولے۔۔۔ ”یہ سب چیزیں سارے محلے والوں کو ضرورت پڑنے پر دے دیتا ہوں۔ ان کا کرایہ بالکل ہے لیکن یہ کرایہ اللہ کے کھاتے میں ہے۔


کیا تم نے سورہ "سورۃ الماعون" نہیں پڑھی۔ اللہ تعالیٰ کہتاہے:

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ۔۔۔ کہ افسوس ہے بربادی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔۔۔ وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۔۔۔ اور عام استعمال کی چیزیں مانگنے پر دوسروں کو نہیں دیتے۔ تو بیٹا! جب سے مجھے یہ آیت سمجھ آئی ہے میں نے اپنے گارڈن میں یہ اسٹور ”الماعون“ بنا دیا ہے۔


 اور ساری عام استعمال کی چیزیں جیسے کلہاڑی، کدال، بیلچہ، کسی، ہتھوڑا، پائپ وغیرہ ساری چیزیں جو کہ پہلے سے میرے گھر موجود تھیں میں نے یہاں جمع کردی ہیں۔ 


اب محلے میں جس کو جو چیز چاہیے وہ آکر لے جاتا ہے، نوٹ بک پر ان کا نام اور تاریخ لکھ دیتا ہوں۔ جب چیز واپس آجاتی ہے تو وصولی بنا دیتا ہوں۔۔۔

میں خوشگوار حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ انہوں نے چائے کا گھونٹ لیا اور بولے۔۔۔ ”کچھ چیزیں میں نے خریدی ہیں، جبکہ بہت سی چیزیں تو محلے والے خود ہی مجھے دے گئے کہ آپ انہیں ”الماعون“ میں رکھ لیں۔ جب ضرورت ہوگی لے جائیں گے، جب کسی اور کو ضرورت ہوگی وہ لے جائیں گے“


 احباب گرامی!

مجھے انکل کا یہ ”الماعون“ والا آئیڈیا بہت پسند آیا۔ ہم بھی ہر روز ایک دوسرے سے چیزیں مانگتے ہیں لیکن اکثر ہم نہیں دیتے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مالک کریم نے نمازیوں کو تو خاص طور سے مخاطب کرکے لین دین کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ کرنے پر ”ویل“ یعنی جہنم کی آگ سے ڈرایا ہے۔ 

چنانچہ آپس میں استعمال کی چیزیں ضرور ایک دوسرے کو دینی چاہییں۔

البتہ ایک بڑی بیماری ”چیز واپس نہ کرنا“ کا علاج کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کا ایک فوری حل تو ”نوٹ بک“ ہے۔ تاکہ یاد دہانی رہے۔ اور چیز واپس مانگ لی جائے۔

چیز مانگ کر لے جانے والے کو بھی سوچنا چاہیے۔ وقت پر واپس کردیں، ورنہ وعدہ خلافی اور دوسرے کو تکلیف میں ڈالنے کا گناہ ہوگا۔ 


آئیے! آج ہی ہم سب اپنے اپنے گھروں میں "الماعون" کی کم از کم ایک الماری اور ڈائری بنا کر اس آیت کی عملی تفسیر کا آغاز کردیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم