ڈنڈا اور مہمان

ایک شخص کسی گائوں میں مہمان ٹھہرا، گائوں والوں نے اسکی بڑی خاطر مدارت کی، اس کے سامنے طرح طرح کے عمدہ اور لذیذ کھانوں کا دستر خوان سجایا گیا؛ وہ ان کھانوں کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر دستر خوان پر رکھے ایک برتن پر پڑی جس میں ایک مضبوط ڈنڈا رکھا ہوا تھا وہ بڑا خوف زدہ ہوا اور اس کے ذہن میں عجیب و غریب خدشات ابھرنے لگے کہ نہ جانے یہ کھانے کے ساتھ ڈنڈا کیوں رکھا گیا ہے؟ اس پریشانی میں وہ کھانا بھی اچھی طرح نہ کھا سکا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دیر تک وہ یہی سوچتا رہا کہ پتا نہیں اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟ گھبراہٹ کے مارے اس سے رہا نہ گیا تو اس نے میزبان سے پوچھ ہی لیا کہ آخر یہ دستر خوان پر ڈنڈا کیوں رکھا ہے ؟ " گاؤں والوں نے بتایا کہ "ہمیں اس کی وجہ تو نہیں معلوم، ہاں یہ ہماری روایت ہے کہ مہمان کے سامنے کھانے کے ساتھ ڈنڈا بھی رکھتے ہیں ! " اس بات سے مہمان بڑا حیران ہوا اور اس عجیب روایت کی حقیقت تک پہنچنے کی ٹھان لی، اسے کسی نے بتایا کہ گاؤں میں ایک بوڑھا رہتا ہے جو یہاں کا بہت پرانا رہائشی ہے، آپ کو اس سے معلوم  ہو سکتا ہے۔ حقیقت جاننے کی کوشش میں وہ مہمان شخص اس بوڑھے آدمی کے پاس جا پہنچا اور اسے مہمان نوازی کا سارا حال کہہ سنایا۔ اس بوڑھے آدمی نے یہ تفصیل سننے کے بعد بتایا: " روایت کی حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں نے اصل روایت کی شکل ہی بدل ڈالی ہے ؛ دراصل روایت یہ تھی کہ گاؤں میں جو مہمان ٹھہرتا تھا ہمارے آبا و اجداد اس کے سامنے کھانے کے ساتھ ایک برتن میں دانت خلال کے لیے تنکے بھی رکھتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنکا لکڑی سے اور لکڑی ڈنڈے سے بدل گئی ہے! 

اے بھولے بھالے انسان! دنیا میں لینے والے سطحی سوچ کے حامل افراد کی سطحی ذہنیت کو بیان کرنے والی اس فرضی حکایت سے معلوم ہو: جب انسان غور و فکر کی عادت چھوڑ دے تو اس کے خیالات بے وقوفانہ رسم و رواج تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اور حقیقت تک رسائی کے لیے آزاد نہیں ہوتے لہذا ہمیں اپنے ذہن کو رسم ورواج تک محدود کرنے کی بجائے حقیقت شناسی کے لیے کھلا رکھنا چاہیے۔ کم نصیبی ہی کہیے کہ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے لوگ لکیر کے فقیر ہیں، انہیں حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ وہ خاندانی یا علاقائی رسموں کو ہی حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں، ایسے لوگ رسم و روایات سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچتے ، حتی کہ انہیں کسی غلط کام پر تنبیہ کی جائے تو حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس غلطی کو رسم و رواج کا نام دے کر ڈٹے رہتے ہیں، حالانکہ یہ روِش بعض اوقات بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور حق کو قبول کرنے میں بھی رکاوٹ بن جاتی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم