بِراء بن مالک، مسیلمہ کذاب اورحدیقة الموت

بکھرے ہوئے بال، غبار آلود چہرہ، نحیف و لاغر ایسا جسم کہ دیکھنے والا انہیں کوئی حیثیث ہی نہ دے۔ لیکن اس قدر بہادر کہ ایک موقعہ پر انہوں نے تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے پورے ایک سو سے زائد مشرکین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ مقتولین اس کےعلاوہ ہیں جنہیں مجاہدین اسلام کے ساتھ مل کر مختلف معرکوں میں انہوں نے تہہ و تیغ کیا۔

آپ بڑے نڈر، بہادر، جفاکش،فن سپہ گری کے ماہر،بے جگری سے لڑنے والے مجاہد اور ایک بہادر انسان تھے،لیکن آپ ہمیشہ بے خوف وخطر میدان کارزار میں کود پڑتے،اس لئے فاروق اعظم رضی اللہ عنہہ  نے اپنے تمام گورنروں کو یہ لکھ بھیجا تھا:


براء بن مالک رضی ﷲ عنہہ کو کسی اسلامی لشکر کا سپہ سالار نہ بنانا مبادا کہ کہیں جذبات میں آکر کوئی ایسا جارحانہ اقدام کر بیٹھیں جس سے لشکر اسلام کو کوئی نقصان اٹھانا پڑے۔


حضرت براء بن مالک انصاری رضی ﷲ عنہ خادمِ رسولﷺ حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہہ کے بھائی تھے۔

حضرت براء بن مالک انصاری رضیﷲ عنہہ کی بہادری کی داستانیں بہت طویل ہیں جن کو یہاں سمانا بہت مشکل ہے اس لئے صرف ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔


اس داستان کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ جب نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کا واقعہ پیش آیا تو کمزور ایمان والے لوگ دین سے منحرف ہونے شروع ہوگئے۔جس تیز رفتاری سے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا،اسی رفتار سے وہ دین اسلام کو چھوڑنے لگے۔


نوبت بایں جا رسید کہ مدینہ،طائف اور دیگر چند علاقوں کے وہی لوگ دائرہ اسلام میں رہے جنہیں اللہ سبحانہ وتعالٰی نے پختہ ایمان نصیب فرمادیا تھا۔


حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہہ نے اس ہولناک فتنے کو دبانے کے لئے انتہائی عظمت اور بہادری کا ثبوت دیا۔

فتنہ انگیزی کرنے والوں کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہو گئے۔آپ نے مہاجرین و انصار کے گیارہ لشکر تیار کئے اور ہر لشکر کے لئے ایک پرچم تیار کیاگیا اور تمام لشکروں کو جزیرۃ عرب میں چاروں طرف اسلامی پرچم دے کر روانہ کر دیا تاکہ وہ مرتدین کو راہ راست پر لائیں اور انہیں حق بات سمجھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں۔اگر نرمی کارگر ثابت نہ ہو تو بزورِ شمشیر اسلام کی حقانیت ان کے دلوں میں بٹھائیں۔


ہوا یہ کہ مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لئے حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہہ حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہہ کی قیادت میں لشکر روانہ کیا۔یہ لشکر اسلام انصار و مہاجرین کے تجربہ کار مجاہدین پر مشتمل تھا ۔ان روشن چہروں میں حضرت براء بن مالک انصاری رضی ﷲ عنہہ بھی تھے۔


علاقہ نجد کے ایک مرکزی مقام یمامہ میں ان دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔تھوڑی ہی دیر میں مسیلمہ کذاب اور اس کی فوج کا پلہ بھاری ہو گیا۔مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے.

اس موقع پر مسلمانوں نے شدید خطرہ محسوس کیا اور انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ اگر مسیلمہ کذاب سے مقابلہ میں وہ شکست کھا گئے تو پھر آج کے بعد اسلام کی سر بلندی کے لئے کوئی بھی سر نہ اٹھا سکے گا اور جزیرہ عرب میں ﷲ سبحانہ و تعالٰی کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔

حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہہ نے ہنگامی طور پر اپنے لشکر کو ازسر نو منظّم کیا۔ مہاجرین و انصار کی الگ الگ گروپ بندی کی.


دونوں فریقوں کے درمیان ایسی تباہ کن اور ہولناک لڑائی شروع ہوئی جس کی مثال پہلی جنگوں میں نہیں ملتی۔مسیلمہ کذاب کی فوج میدان جنگ میں جم کر لڑی اور اسے اس کی بھی پروا نہ تھی کہ فوجیوں کی کثیر تعداد تہہ تیغ ہورہی ہے۔


مسلمان فوج نے اس مقام پر بہادری کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ اگر انہیں اکٹھا کر دیا جائے تو ایک دلچسپ داستان جہاد مرتب ہو جائے۔

لیکن شجاعت کے یہ تمام واقعات حضرت براء بن مالک رضی  ﷲ عنہ کی شجاعت کے سامنے معمولی معلوم ہوتے ہیں۔

حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ نے جب دیکھا کہ لڑائی بڑی خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے،تو حضرت براء بن مالک انصاری رضی ﷲ عنہ کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:


‘‘تم میں سے اب کوئی بھی مدینہ واپس جانے کی نہ سوچے۔یوں سمجھو کہ آج سے تمھارے لئے مدینہ ختم۔

بس اب تمھارے لئے ایک ﷲ اور جنت ہے۔‘‘

یہ کہہ کر نعرہ تکبیر کہتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے،تلوار سے گردن اڑاتے ہوئے آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ایسے زور دار انداز میں حملہ کیا کہ مسیلمہ اور اس کی فوج کے قدم ڈگمگا گئےاور مجبور ہو کر دشمن فوج نے ایک باغیچہ میں پناہ لی۔یہ باغیچہ بعد میں تاریخ میں ‘‘باغیچہ موت‘‘ کے نام سے مشہور ہوا،کیونکہ اس باغیچہ میں بے پناہ مشرکین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔


چونکہ دشمن نے باغ میں داخل ہو کر باغ کا دروازہ بند کر لیا تھا اور بظاہر ان سے مقابلے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔اس موقع پر حضرت براء بن مالک بڑی تیزی اور احتیاط سے ایک ڈھال پر بیٹھ گئے اور ساتھیوں نے دس نیزوں کے زور سے بڑے ہی ماہرانہ انداز میں اس ڈھال کو اچھال کر باغ کے اندر پھینک دیا۔حضرت براء بن مالک رضی ﷲ عنہہ ان دشمنوں پر بجلی بن کر گرے جو ہزاروں کی تعداد میں اس باغ میں پناہ لے چکے تھے۔انہیں بے دریغ قتل کرتے ہوئے مرکزی دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔اس معرکہ آرائی میں آپ کے جسم پر اسی سے زائد تیروں اور تلواروں کے زخم لگ چکے تھے۔مسلمانوں نے دروازے سے داخل ہو کر مسیلمہ کذاب کی فوج پر زور دار حملہ کردیا، دیواروں کی اوٹ میں جو پناہ لئے بیٹھے تھے ،ان سب کو قتل کر دیا۔تقریبا بیس ہزار افراد قتل کر کے مسلمان مسیلمہ کذاب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور بالآخر اسے بھی واصل جہنم کر دیا۔


حضرت براء بن مالک رضی ﷲ عنہہ کو اٹھا کر خیمے میں لایا گیا تاکہ ان کا علاج کیا جائے،حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہہ بھی ان کے علاج معالجے کی خاطر وہیں ٹھہرے رہے۔ﷲ سبحانہ وتعالٰی نے انہیں شفا عطا فرما دی اور لشکر اسلام کو ان کے ہاتھوں بفضلہ تعالٰی فتح نصیب ہوئی۔

حضرت براء بن مالک رضی ﷲ عنہہ ہمیشہ شہادت کا شوق اپنے دل میں بسائے رکھتے۔ باغیچہ موت میں بھی ان کو شہادت نصیب نہ ہوئی۔وہ یکے بعد دیگرے جنگوں میں شریک ہوتے رہے تاکہ شہادت کا شرف حاسل کر سکیں،جو ان کی سب سے بڑی دلی تمنا تھی ،یہاں تک کہ سرزمین فارس میں جنگ تستر لڑی گئی۔


اس معرکہ آرائی میں حضرت براء بن مالک انصاری رضی ﷲ عنہہ نے ﷲ سبحانہ وتعالٰی سے شہادت کی التجا کی۔ ﷲ تعالٰی نے آپ کی دعا قبول کر لی اور آپ دیدارِ الٰہی کا شوق دل میں لئے جام شہادت نوش کر گئے۔


المصدر: حیاۃ الصحابہ: شمشیر بے نیام

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم