نیکی پھیلائیں...بدی مٹائیں (امربالمعروف و نہی عن المنکر)

 (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) دنیا سے ہر قسم کی بدی کا خاتمہ کرنا اور نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ دینا مسلمانوں کی ہی زمہ داری ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ہے "تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو" رسول کریمﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر شخص نگران اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔

 ملک کے حکمران سے اس کے باشندگان ملک کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ہر گھر کے سربراہ سے اس کے گھر کے افراد کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ یعنی اس نے ان کی اصلاح، تربیت اور بہتر زندگی کے لئے کیا کچھ کیا تھا، انہیں بری راہوں پر چلنے سے روکا تھا یا نہیں اور صالح زندگی گزارنے کے لئے ان کی مدد کی تھی یا نہیں؟ اس کام کو قرآن مجید میں "امر با لمعروف و نہی عن المنکر" کا عنوان دیا گیا ہے۔

     دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک کسی معاشرے کے افراد کی طرف سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی اچھائی اور نیکی کی تلقین کرنے اور برائیوں سے روکنے کا کام ہوتا رہا ہے، اس معا شرے میں اچھے لوگ غالب رہے ہیں۔ امن و سلامتی کا دور دورہ رہا ہے اور شیطانی قوتیں ناکام رہی ہیں لیکن جب سے یہ اجتماعی ذمہ داری صرف علمائے دین کے لئے مخصوص کر دی گئی ہے اور عام لوگوں نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا ہے، تب سے علمائے دین کی کوشش کے باوجود گمراہی کا سلسلہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جرم ، ظلم ، بدی ، گناہ ، جہالت اور فساد کا سیلاب ہر خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ہر معاشرے میں فساد ، انتشار اور اضطراب روز افزوں ہے اور لوگوں کا سکون غارت ہوتا جا رہا ہے۔

 موجودہ دور دنیا والوں کے اخلاق و کردار کی تاریخ کا بدترین دور بن چکا ہے جس میں جھوٹے مکار اور دھوکے باز غالب آتے جا رہے ہیں۔ آوارہ بد کردار اور بد چلن لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔ عریانی ، فحاشی اور بے حیائی کی یلغار ہو چکی ہے۔ رشوت ستانی ، بدعنوانی، دغابازی اور کام چوری عام ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے احکامات اور تعلیمات کے منکر عیاش لوگ خود کو ترقی پسند، روشن خیال اور لبرل انسان کا لقب دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور انبیاء علیہ السلام کی طرف سے حرام قرار دیئے گئے کاموں کو حلال قرار دیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو گناہ آلودہ زندگی بسر کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔

    نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قوت کے زریعے نیکی سے روکا اور بدی کو پھیلایا جا رہا ہے۔ غرضیکہ دنیا بھر کے لوگوں کی اکثریت ڈراط مستقیم سے بھٹک کر بلا خوف و خطر جہنم کی راہ پر گامزن ہے اور آج لوگوں کی زندگی بجائے خود ایک دردناک عذاب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ نبی کریمﷺ نے ان الفاظ میں اس خطرے کی نشاندہی فرمائی تھی:
 
     "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے (تمہیں چاہیے کہ) تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ تم پر عذاب نازل کر دے۔ اس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو گے مگر تمہاری دعا نہیں سنی جائے گی۔"(ترمذی)

     یہ بات تجربات سے ثابت ہو گئی ہے کہ جس معاشرے میں رشوت ستانی، بد عنوانی، دغا بازی اور کام چوری عام ہو جائے اس پر جلد یا بدیر تباہی، بربادی آکر رہتی ہے کیونکہ حرام رزق تمام برائیوں کی ماں ہے جس کی قجہ سے انسان میں ہر برائی جنم لیتی ہے جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے، اس لیے ہر شعبہ زندگی کے افراد کو چاہئے کہ حرام رزق کی بدعات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیں۔ لوگوں کو دنیا و آخرت میں رزق حلال کے فوائد اور حرام رزق کے نقصانات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کریں تاکہ لوگ محنت اور ایمانداری سے کام کر کے ہی رزق حلال کمائیں اور یوں دنیا سے برائیوں کا خاتمہ کر کے ایک جنت نظیر معاشرہ وجود میں لایا جا سکے۔ انشاء اللہ۔۔۔۔(عارف الرحمٰن)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

رابطہ فارم